صبح کو وہ سو کر اٹھا تو کمرہ میں چڑیا کا انڈا ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔ یہ گوریا کا انڈہ تھا جس نے چھت کی لکڑی میں ایک گوشہ پاکر وہاں اپنا گھونسلا بنا رکھا تھا۔ اس گھونسلے کی وجہ سے کمرہ میں ہروقت چڑیوں کا شور رہتا۔ تنکے گرتے رہتے۔ آدمی نے فرش پر ٹوٹا ہوا انڈا دیکھا تو اس نے گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔ اگلے دن پھر وہی ’’چوں چوں‘‘ کا شور تھا۔ چڑیاں دوبارہ چھت کی لکڑی میں تنکے جمع کررہی تھیں۔ شاید اجڑے ہوئے گھونسلے کو دوبارہ بنا بنایا دیکھنے کے جذبہ نے ان کے اندر عمل کا شوق بڑھا دیا تھا۔ دوسرا گھونسلا انہوں نے اس سے کم مدت میں بنالیا جتنی مدت میں انہوں نے پہلا گھونسلا بنایا تھا۔ چڑیوں کی اس جسارت پر اس کو غصہ آیا اور اس نے دوبارہ ان کا گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے چڑیوں کے اوپر آخری طور پر فتح پالی ہے۔ مگر اگلے دن پھر گھونسلے کا مسئلہ اس کے سر پر موجود تھا۔ چڑیوں نے جب دیکھا کہ ان کا بنا بنایا گھونسلا اجاڑ دیا گیا ہے اور انڈے توڑے جاچکے ہیں تو انہوں نے رونے میں یا فریاد کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا کہ باہر جاکر دوسری ہم جنس چڑیوں کو ڈھونڈیں اور ان کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر گھر پر حملہ کریں۔ اس کے برعکس وہ خاموشی سے باہر نکل گئیں اور ایک ایک تنکا لاکر دوبارہ گھونسلا بنانا شروع کردیا۔اب یہی روزانہ کا قصہ ہوگیا۔ چڑیاں روزانہ گھونسلا بنانا شروع کرتیں اور آدمی روزانہ اس کو اجاڑ دیتا، اسی طرح ایک مہینہ گزرگیا۔ اس دوران میں کتنی ہی بار چڑیوں کی محنت ضائع ہوئی۔ ان کے چنے ہوئے تنکے بیکار ہوگئے مگر چڑیاں ان چیزوں سے بے پروہ ہوکر اپنا کام کئے جارہی تھیں۔ آدمی کی نفرت کا جواب چڑیوں کے پاس صرف خاموش عمل تھا۔ آدمی کی تخریب کا مقابلہ ہر بار وہ نئی تعمیر سےکرتی تھیں۔ چڑیوں کا دشمن بہت طاقتور تھا مگر طاقت ور دشمن کا توڑ انہوں نے اپنے لگاتار عمل میں ڈھونڈ لیا تھا۔آخر نفرت پر خاموش عمل غالب آیا، چڑیوں کی مسلسل تعمیر نے آدمی کو مسلسل تخریب پر فتح پائی۔ ایک مہینہ کے ناکام مقابلہ کے بعد آدمی تھک چکا تھا۔ اس نے چڑیوں کا گھونسلا اجاڑنا چھوڑ دیا۔ اب گوریا نے اپنے گھونسلے کو مکمل کرکے پھر اس میں انڈے دے دئیے ہیں۔ وہ ان کو سینے میں مشغول ہے تاکہ وہ اپنی اگلی نسل پیدا کرے اور پھر اپناکام کرکے اڑجائے۔ جب یہ چڑیاں اپنے گھونسلے میں جمع ہوتی ہیں تو ان کا ’’چوں چوں‘‘ کا شور اب بھی کمرہ میں گونجتا ہے۔ مگر اب آدمی کو یہ شور بُرا نہیں لگتا۔ کیونکہ ’’چوں چوں‘‘ کی آواز میں اس کو قیمتی پیغام سنائی دیتا ہے کہ اپنے دشمن سے نفرت نہ کرو‘ ہرحال میں اپنی تعمیری جدوجہد میں لگے رہو‘ تم کامیاب ہوگے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں